سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا، جسٹس منیب اختر
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا مقصد تحریک انصاف کو انتخابات سے باہر کرنا ہر گز نہیں تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فُل کورٹ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کو براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر نشر کیا گیا۔
سماعت کے آغاز پر الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے دلائل کا آغاز کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی لسٹ طلب کی تھی جو نہیں ملی، وکیل نے جواب دیا کہ سارا ریکارڈ جمع کرا دیا ہے اور کیس سے متعلق حتمی پیپر بک جمع کرائی ہے۔
وکیل نے مزید بتایا کہ حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں کہا کہ میرا تعلق سنی اتحاد اور تحریک انصاف سے ہے۔ حامد رضا کے دستاویزات میں کہا گیا کہ تحریک انصاف نظریاتی کے ساتھ منسلک ہوں، جو ایک مختلف سیاسی جماعت ہے جس کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اردو والے دستاویزات میں تو حامد رضا نے نہیں لکھا کہ وہ آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لینا چاہ رہے ہیں، وکیل نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ حامد رضا خود کو آزاد امیدوار نہ کہیں۔ تحریک انصاف نظریاتی کا ٹکٹ حامد رضا نے جمع نہیں کروایا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے حامد رضا کو ٹاور کا نشان دیا۔ ریٹرننگ افسران بھی الیکشن کمیشن کے ہی آفیشلز ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو ریکارڈ ہے ہمیں دکھائیں، ورنہ تو ہوا میں بات ہوگی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے بتایا کہ ہمارے سامنے کاغذات نامزدگی کا کیس ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا جواب جو چارٹ آپ نے جمع کرایا اس میں موجود ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک شخص اگر شادی کرنا چاہے تو لڑکی کی بھی رضامندی ضروری ہے۔ اسی طرح جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں، اس پارٹی سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکٹ لگانا ضروری ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ایسا ہوا کہ امیدوار کہے کہ میں ایک پارٹی کا ہوں اور اسی کا سرٹیفیکٹ بھی دے لیکن الیکشن کمیشن نے اسے آزاد امیدوار ظاہر کردیا ہو؟ وکیل نے کہا کہ ایسے امیدوار تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو انتخابات عارف علوی نہ کرتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی نشان بعد کی بات ہے، امیدوار انتخابات میں حصہ لیتا ہے، پارٹی نہیں۔
بعد ازاں، سپریم کورٹ نے سماعت یکم جولائی بروز پیر کی صبح 11 بج کر 30 منٹ تک ملتوی کردی۔
کیس کا پس منظر
سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6 اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔