چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آرڈیننس لانا پارلیمان کی توہین ہے‘ ایسے کام چلانا ہے تو پارلیمنٹ بند کردیں
الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق سماعت کے تناظر میں پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی آرڈیننس کے استعمال اور الیکشن کمیشن جیسے آئینی اداروں کی خود مختاری کے حوالے سے کئی تنقیدی ریمارکس دئیے۔ ان کے تبصروں کا ایک جملہ یہ ہے:
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے زور دے کر کہا کہ تبدیلیاں لانے کے لیے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لینا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ انہوں نے اس طرح کے آرڈیننس کی ضرورت اور عجلت پر سوال اٹھایا، خاص طور پر جب پارلیمنٹ پہلے ہی الیکشن ایکٹ جیسے معاملے پر قانون سازی کر چکی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر سوال کیا کہ آرڈیننس کے ذریعے پارلیمانی طریقہ کار کو نظرانداز کر کے کس کے مفادات پورے کیے جا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے دوران جس میں جسٹس نعیم افغان بھی شامل تھے، چیف جسٹس نے آئینی شقوں کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی، خاص طور پر آرٹیکل 219 (سی)، جو الیکشن کمیشن کو الیکشن ٹربیونلز کا اختیار دیتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے آئینی کردار اور اختیارات سب سے اہم ہیں اور ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔
مزید برآں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستانی سیاست میں موجود متنازعہ ماحول پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن اور ایوان صدر جیسے آئینی اداروں کے درمیان تنازعات کو آرڈیننس جاری کرنے جیسے یکطرفہ اقدامات کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے اداروں کے درمیان باہمی احترام پر زور دیتے ہوئے سوال کیا کہ پارلیمنٹرینز ایک دوسرے کے لیے وہی احترام کیوں نہیں دکھاتے جو عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے لیے کرتے ہیں۔ انہوں نے موثر حکمرانی کو یقینی بنانے اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے آئینی اداروں کے درمیان تعمیری بات چیت اور تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
مجموعی طور پر، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس نے آئینی دفعات کی پاسداری، ادارہ جاتی خود مختاری کے احترام، اور پاکستان کی گورننس میں شفاف اور باہمی تعاون کے ساتھ فیصلہ سازی کے عمل کی ضرورت پر زور دیا۔